گرمیوں کا موسم تھا۔ سورج آسمان پر آگ برسا رہا تھا۔ ایک پیاسا کوا کی کہانی ہر طرف دھوپ ہی دھوپ تھی۔ پرندے بھی اُڑتے اُڑتے تھک گئے تھے۔ ایسے میں ایک پیاسا کوّا بہت دیر سے پانی کی تلاش میں اُڑ رہا تھا۔ اس کی چونچ خشک ہو چکی تھی اور وہ تھکن سے نڈھال ہو گیا تھا۔
کافی دیر تک اُڑنے کے بعد اچانک اُس کی نظر ایک مٹی کے گھڑے پر پڑی۔ وہ خوشی سے چہک اُٹھا۔ “آخرکار مجھے پانی مل گیا!” اُس نے دل ہی دل میں کہا اور فوراً گھڑے کے پاس اُترا۔
مگر جب اُس نے اندر جھانکا تو دیکھا کہ گھڑے میں پانی تو ہے، مگر بہت نیچے۔ اُس کی چونچ وہاں تک نہیں پہنچ سکتی تھی۔ کوّا پریشان ہو گیا، لیکن ہار نہیں مانی۔ وہ سوچنے لگا کہ کیا کروں؟ پھر اچانک اُس کے ذہن میں ایک چالاک خیال آیا۔
کوّے نے اردگرد دیکھا۔ قریب ہی کچھ کنکر پڑے ہوئے تھے۔ اُس نے ایک ایک کرکے کنکر چونچ سے اُٹھائے اور گھڑے میں ڈالنے لگا۔ ہر کنکر کے ساتھ پانی اوپر آتا گیا۔ کوّا محنت کرتا رہا، آخرکار پانی گھڑے کے منہ تک پہنچ گیا۔
اب کوّے نے مزے سے پانی پیا، اپنی پیاس بجھائی، اور خوشی خوشی اُڑ گیا۔ جاتے جاتے اُس نے سوچا
“محنت اور عقل سے کوئی کام مشکل نہیں
کہانی کا سبق
عقل اور محنت سے ہر مشکل آسان ہو جاتی ہے۔

