زمانۂ قدیم میں ایک بڑا بادشاہ تھا جس کا نام نمرود تھا۔ وہ نہایت مغرور، ظالم اور خدا کے مقابلے میں اپنی خدائی کا دعویٰ کرنے والا شخص تھا۔ اس نے اپنے ملک میں یہ حکم جاری کر رکھا تھا کہ کوئی شخص اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرے۔ لوگ اس سے ڈرتے تھے، لیکن دلوں میں ایک سوال چھپا تھا — کیا واقعی نمرود ہی ربّ العالمین ہے؟

اسی زمانے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ظہور ہوا۔ آپؑ کو اللہ تعالیٰ نے بچپن ہی سے عقل، دانائی اور سچائی عطا فرمائی تھی۔ آپؑ نے بچپن ہی سے دیکھا کہ لوگ پتھروں کے بتوں کو سجدہ کرتے ہیں، ان سے دعائیں مانگتے ہیں، اور ان کے سامنے نذرانے رکھتے ہیں۔ لیکن ابراہیمؑ کا دل گواہی دیتا تھا کہ یہ پتھر کچھ نہیں کر سکتے۔

توحید کی آواز

ایک دن حضرت ابراہیمؑ نے اپنے باپ آزر سے فرمایا:

“اے ابّا جان! آپ ان چیزوں کی کیوں عبادت کرتے ہیں جو نہ سنتی ہیں، نہ دیکھتی ہیں، اور نہ ہی آپ کے لیے کسی نقصان یا فائدے کی طاقت رکھتی ہیں؟”

آزر سخت ناراض ہوا اور بولا:

“اے ابراہیم! کیا تو میرے معبودوں سے منہ موڑ رہا ہے؟ اگر باز نہ آیا تو تجھے سنگسار کر دوں گا!”

لیکن ابراہیمؑ نے نہ غصہ کیا نہ بددعا دی، بلکہ نرمی سے فرمایا:

“میں اپنے رب سے آپ کے لیے ہدایت کی دعا کروں گا، کیونکہ وہ بڑا مہربان ہے۔”

بتوں کا توڑنا

جب شہر کے لوگ ایک بڑی تقریب کے لیے باہر گئے، تو ابراہیمؑ بت خانہ میں داخل ہوئے۔ وہاں درجنوں بت کھڑے تھے۔ آپؑ نے فرمایا:

“کیا تم کھاتے ہو؟ کیا تم بولتے ہو؟”

جب کوئی جواب نہ آیا، تو آپؑ نے سب بت توڑ ڈالے، سوائے ایک بڑے بت کے۔ اس کے کندھے پر کلہاڑا لٹکا دیا۔

جب لوگ واپس آئے تو دیکھ کر حیران رہ گئے۔ انہوں نے شور مچایا:

“ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ کس نے کیا؟”

کسی نے کہا:

“یہ کام ابراہیم نے کیا ہے، وہ ہمیشہ ہمارے معبودوں کے خلاف بات کرتا ہے۔”

نمرود کے دربار میں ابراہیمؑ کو حاضر کیا گیا۔ نمرود نے پوچھا:

“اے ابراہیم! کیا تو نے ہمارے معبودوں کو توڑا ہے؟”

آپؑ نے بڑے اطمینان سے فرمایا:

“بلکہ یہ بڑے والے نے کیا ہے، ان سے پوچھ لو اگر یہ بول سکتے ہیں!”

یہ سن کر نمرود اور اس کے درباری لاجواب ہو گئے۔ مگر ان کے غرور نے سچائی قبول نہ کی۔

آگ کا الاؤ

نمرود نے حکم دیا کہ ابراہیمؑ کو آگ میں پھینک دیا جائے۔ اس نے ایک بہت بڑا الاؤ جلانے کا حکم دیا، اتنا بڑا کہ اس کی لپٹیں آسمان کو چھونے لگیں۔ لوگوں نے منجنیق سے حضرت ابراہیمؑ کو اس میں پھینک دیا۔

لیکن اللہ تعالیٰ نے فوراً حکم دیا:

“اے آگ! ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی والی بن جا!”
(سورۃ الانبیاء، آیت 69)

سب حیران رہ گئے — آگ ٹھنڈی ہوگئی، اور ابراہیمؑ سلامت کھڑے تھے۔ لوگوں نے دیکھا کہ جنہیں وہ جلا دینا چاہتے تھے، وہ آگ میں بھی محفوظ ہیں۔

ایمان کی جیت

نمرود اپنی شکست پر جل اٹھا۔ اس نے بحث کرنے کی کوشش کی کہ وہ بھی زندگی اور موت دے سکتا ہے۔ اس پر ابراہیمؑ نے فرمایا:

“اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے، اگر تُو سچا ہے تو اسے مغرب سے نکال دکھا!”

نمرود خاموش ہوگیا۔ وہ دل سے جان چکا تھا کہ ابراہیمؑ کا رب ہی سچا رب ہے، مگر اس کا تکبر اسے ایمان لانے سے روک رہا تھا۔

اللہ تعالیٰ نے اس کے غرور کا انجام ایسا کیا کہ نمرود ایک معمولی مچھر کے ذریعے ہلاک ہوا — وہی مچھر اس کی ناک میں گھس گیا اور اسے تڑپا تڑپا کر مار گیا۔

سبق اور پیغام

یہ واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ حق ہمیشہ غالب آتا ہے، چاہے دشمن کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو۔
حضرت ابراہیمؑ نے ثابت کیا کہ ایمان، صبر اور توکل سے بڑی کوئی طاقت نہیں۔
دنیا کے نمرود ہمیشہ ختم ہو جاتے ہیں، مگر اللہ کے بندے ہمیشہ سرخرو رہتے ہیں۔

Leave A Reply

Please enter your comment!
Please enter your name here