Home Blog Page 2

قرآنِ خفیہ میں قصۂ یاجوج ماجوج ایک پراسرار حقیقت

0
Islami Waqiat for Yajooj Majooj
Islami Waqiat for Yajooj Majooj

دنیا کی تاریخ میں کچھ ایسے واقعات ہیں جن کا ذکر نہ صرف مذاہب میں بلکہ مختلف تہذیبوں کی کتابوں میں بھی ملتا ہے۔ انہی پراسرار قصوں میں سے ایک ہے یاجوج اور ماجوج (Gog and Magog) کا واقعہ، جس کا ذکر قرآنِ مجید میں بھی ایک نہایت گہرے اور عجیب انداز میں آیا ہے۔
یہ قصہ انسانیت کے انجام، قیامت کی نشانیوں اور اللہ کی قدرت کے رازوں سے بھرا ہوا ہے۔ آئیے، قرآن و تفسیر کی روشنی میں اس خفیہ اور پر اسرار واقعے کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

یاجوج ماجوج کون ہیں؟

قرآن میں سورہ الکہف کی آیات 92 تا 98 میں ذوالقرنین کے سفر کا تذکرہ ملتا ہے۔ وہاں ایک قوم نے ان سے فریاد کی کہ:

“اے ذوالقرنین! یاجوج اور ماجوج زمین میں فساد مچاتے ہیں، تو کیا ہم تمہیں کچھ معاوضہ دیں کہ تم ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار بنا دو؟”

یہاں سے اندازہ ہوتا ہے کہ یاجوج ماجوج ایک طاقتور، جنگجو اور ظالم قوم تھی، جو زمین پر تباہی مچاتی تھی۔ ذوالقرنین نے ان کے خلاف ایک عظیم لوہے اور پگھلے تانبے کی دیوار تعمیر کی، تاکہ وہ باقی انسانوں تک نہ پہنچ سکیں۔

قرآنِ خفیہ کا پیغام

اگر ہم غور کریں تو یہ واقعہ صرف ایک تاریخی قصہ نہیں بلکہ ایک روحانی علامت بھی ہے۔
قرآن نے یاجوج ماجوج کو فساد، طاقت کے غلط استعمال اور انسان کے لالچ کی علامت کے طور پر بھی پیش کیا ہے۔

قرآنِ خفیہ (یعنی قرآن کا باطنی مفہوم) یہ بتاتا ہے کہ جب انسان اپنی حدیں توڑ کر ظلم، فتنہ اور فساد میں ڈوب جاتا ہے تو وہ خود ایک طرح کا “یاجوج ماجوج” بن جاتا ہے۔

یاجوج ماجوج اور قیامت کی نشانیاں

احادیث میں آتا ہے کہ قیامت سے پہلے یاجوج ماجوج دوبارہ ظاہر ہوں گے اور دنیا میں تباہی مچائیں گے۔
یہ وہ وقت ہوگا جب زمین پر ظلم، گناہ اور فتنہ عام ہو جائے گا۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

“یہاں تک کہ جب یاجوج ماجوج کھول دیے جائیں گے اور وہ ہر بلندی سے دوڑتے چلے آئیں گے۔”
(سورۃ الانبیاء: 96)

یہ آیت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ایک وقت آئے گا جب وہ دیوار ٹوٹ جائے گی، اور یہ قوم دنیا بھر میں پھیل جائے گی۔
کچھ علما کے نزدیک یہ سائنسی طاقتوں، ایٹمی ہتھیاروں یا جدید قوموں کی علامت بھی ہو سکتی ہے جو زمین پر ظلم اور تباہی پھیلا رہی ہیں۔

ذوالقرنین اور دیوار کی حقیقت

قرآن نے ذوالقرنین کو اللہ کا نیک اور بااختیار بندہ قرار دیا۔
انہوں نے عدل، عقل اور علم کی بنیاد پر یاجوج ماجوج کے فتنے کو روکا۔
آج کی دنیا میں اگر ہم غور کریں تو “دیوار” صرف لوہے کی نہیں بلکہ ایمان، اخلاق، علم اور عدل کی دیوار ہے۔

یہ پیغام ہے کہ ہر مسلمان کو اپنی روحانی دیوار مضبوط کرنی چاہیے تاکہ شیطان، لالچ اور گناہ کے یاجوج ماجوج اس کے دل میں داخل نہ ہو سکیں۔

یاجوج ماجوج کے جدید نشانات

ٹیکنالوجی اور طاقت کا غلط استعمال
انسان نے ترقی تو کی، مگر اخلاقی طور پر پستی میں جا رہا ہے۔ یہ جدید “یاجوج ماجوج” کا دور ہے۔

دنیاوی لالچ اور خود غرضی
ہر شخص مال، شہرت اور طاقت کے پیچھے بھاگ رہا ہے — یہی وہ فساد ہے جس کی قرآن نے نشاندہی کی۔

عالمی جنگوں اور تباہ کن ہتھیاروں کا فتنہ
ایٹمی طاقتیں آج اسی “پراسرار قوم” کا روپ لگتی ہیں جو زمین کو اجاڑنے پر تُلی ہوئی ہیں۔

قرآنی پیغام: خودی کی دیوار مضبوط کرو

قرآن ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ یاجوج ماجوج سے بچاؤ صرف ایمان، علم اور عمل سے ممکن ہے۔
اگر انسان اپنے اندر کی دیواریں — صبر، تقویٰ، علم، اور عدل — قائم رکھے تو کوئی یاجوج ماجوج اس پر غالب نہیں آ سکتا۔

اختتامی پیغام

یاجوج اور ماجوج کا قصہ صرف ماضی کا واقعہ نہیں، بلکہ انسانی تاریخ کا آئینہ ہے۔
قرآن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جب انسان فتنہ، ظلم اور غرور میں ڈوب جاتا ہے تو وہ خود تباہی کا سبب بنتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ذوالقرنین کی مثال دے کر بتایا کہ عدل، ایمان اور حکمت سے ہر فتنہ روکا جا سکتا ہے۔

لہٰذا، اگر ہم اپنے دلوں میں قرآن کا نور پیدا کریں تو دنیا کے ہر یاجوج و ماجوج پر غالب آ سکتے ہیں۔

ایک بندر بادشاہ اور بھوت کی کہانی

0
ek-bandar-badshah-aur-bhoot-ki-kahani
ek-bandar-badshah-aur-bhoot-ki-kahani

ایک زمانے کی بات ہے، ایک گھنے جنگل میں ایک چالاک بندر رہتا تھا۔ وہ بہت ہوشیار مگر تھوڑا شرارتی بھی تھا۔ جنگل کے تمام جانور اُس سے ڈرتے بھی تھے اور اُس کی عقل کی تعریف بھی کرتے تھے۔

اسی جنگل کے قریب ایک پرانا محل تھا جس میں ایک بہادر بادشاہ کبھی رہا کرتا تھا۔ مگر اب وہ محل ویران ہو چکا تھا، کیونکہ مشہور تھا کہ وہاں ایک بھوت رہتا ہے۔ ہر رات عجیب آوازیں آتی تھیں، دروازے خود کھلتے اور بند ہوتے تھے۔

ایک دن بندر نے سوچا،
“اگر واقعی محل میں بھوت ہے، تو کیوں نہ جا کر دیکھا جائے۔ شاید وہاں خزانہ بھی ہو!”

بندر کی مہم شروع ہوئی

رات کا وقت تھا۔ چاند کی ہلکی روشنی جنگل پر پھیلی ہوئی تھی۔ بندر آہستہ آہستہ محل کے اندر داخل ہوا۔ جیسے ہی وہ اندر گیا، ایک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آیا اور دروازہ خود بخود بند ہوگیا۔

بندر ڈر گیا مگر بولا،
“میں بندر ہوں، مجھے کوئی نہیں ڈرا سکتا!”

اسی لمحے ایک خوفناک آواز گونجی،
“کون ہے جو میرے محل میں آیا؟”

بندر کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اس کے سامنے ایک سفید دھوئیں جیسا وجود نمودار ہوا — وہ بھوت تھا۔

بھوت کا چیلنج

بھوت نے کہا


“اگر تم نے یہاں سے نکلنا ہے تو میرا ایک سوال حل کرو، ورنہ ہمیشہ کے لیے میرے ساتھ رہو گے!”

بندر نے ہمت دکھاتے ہوئے کہا،
“پوچھو، کیا سوال ہے؟”

بھوت بولا،
“دنیا میں سب سے زیادہ طاقتور کون ہے؟”

بندر نے ذرا سوچا، پھر مسکرا کر جواب دیا،
“طاقتور وہ نہیں جو دوسروں کو ڈراتا ہے، بلکہ وہ ہے جو اپنے ڈر پر قابو پاتا ہے۔”

بھوت حیران رہ گیا۔ اس کے چہرے پر نرمی آئی۔ اس نے کہا،
“تم نے سچ کہا بندر! میں خود اپنے ڈر کا قیدی ہوں۔ تم نے مجھے آزاد کر دیا۔ اب تم جا سکتے ہو۔”

بادشاہ کا خواب

اگلے دن جنگل کے جانوروں نے دیکھا کہ بندر کے ہاتھ میں ایک سنہری تاج ہے۔ بندر نے بتایا کہ بھوت دراصل اس محل کا بادشاہ تھا جو جنگ میں مارا گیا تھا۔ اُس کی روح سکون چاہتی تھی، اور بندر کے جواب نے اُسے آزادی دے دی۔

جنگل کے تمام جانوروں نے بندر کو “جنگل کا بادشاہ” بنا دیا۔
بندر نے کہا،
“طاقت جسم میں نہیں، نیت میں ہوتی ہے۔ جو دل سے نیک ہو، وہی اصل بادشاہ ہے۔”

کہانی کا سبق

حوصلہ سب سے بڑی طاقت ہے۔

    ایک پیاسا کوا کی کہانی

    0
    piasa kawa kahani
    piasa kawa kahani

    گرمیوں کا موسم تھا۔ سورج آسمان پر آگ برسا رہا تھا۔ ایک پیاسا کوا کی کہانی ہر طرف دھوپ ہی دھوپ تھی۔ پرندے بھی اُڑتے اُڑتے تھک گئے تھے۔ ایسے میں ایک پیاسا کوّا بہت دیر سے پانی کی تلاش میں اُڑ رہا تھا۔ اس کی چونچ خشک ہو چکی تھی اور وہ تھکن سے نڈھال ہو گیا تھا۔

    کافی دیر تک اُڑنے کے بعد اچانک اُس کی نظر ایک مٹی کے گھڑے پر پڑی۔ وہ خوشی سے چہک اُٹھا۔ “آخرکار مجھے پانی مل گیا!” اُس نے دل ہی دل میں کہا اور فوراً گھڑے کے پاس اُترا۔

    مگر جب اُس نے اندر جھانکا تو دیکھا کہ گھڑے میں پانی تو ہے، مگر بہت نیچے۔ اُس کی چونچ وہاں تک نہیں پہنچ سکتی تھی۔ کوّا پریشان ہو گیا، لیکن ہار نہیں مانی۔ وہ سوچنے لگا کہ کیا کروں؟ پھر اچانک اُس کے ذہن میں ایک چالاک خیال آیا۔

    کوّے نے اردگرد دیکھا۔ قریب ہی کچھ کنکر پڑے ہوئے تھے۔ اُس نے ایک ایک کرکے کنکر چونچ سے اُٹھائے اور گھڑے میں ڈالنے لگا۔ ہر کنکر کے ساتھ پانی اوپر آتا گیا۔ کوّا محنت کرتا رہا، آخرکار پانی گھڑے کے منہ تک پہنچ گیا۔

    اب کوّے نے مزے سے پانی پیا، اپنی پیاس بجھائی، اور خوشی خوشی اُڑ گیا۔ جاتے جاتے اُس نے سوچا


    “محنت اور عقل سے کوئی کام مشکل نہیں

    کہانی کا سبق

    عقل اور محنت سے ہر مشکل آسان ہو جاتی ہے۔

    دھوبی کے بیوقوف گدھا کی کہانی

    0
    dhobi ke bewaqoof gadhe ki kahani
    dhobi ke bewaqoof gadhe ki kahani

    ایک زمانے کی بات ہے، ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک دھوبی رہتا تھا۔ دھوبی کے بیوقوف گدھا کی کہانی اس کے پاس ایک گدھا تھا جو روزانہ اس کے ساتھ دریا کے کنارے جاتا، کپڑے لاد کر گھر واپس آتا۔ گدھا محنتی تو تھا، لیکن بہت بیوقوف بھی تھا۔

    ایک دن دھوبی نے سوچا کہ آج زیادہ کپڑے دھو لوں تاکہ کل آرام کر سکوں۔ اس نے اپنے گدھے پر کپڑوں کی بھاری گٹھڑیاں لاد دیں۔ گدھے نے بہت مشکل سے وہ وزن اٹھایا اور دریا کی طرف چل پڑا۔ راستے میں وہ بہت تھک گیا۔

    جب وہ دریا کے کنارے پہنچے تو دھوبی کپڑے دھونے لگا۔ گدھا ایک طرف کھڑا ہو کر آرام کرنے لگا۔ قریب ہی ایک چوراہے پر ایک تاجر کا گدھا بھی کھڑا تھا، جس پر نمک کی بوریاں لدی تھیں۔

    جب تاجر کا گدھا دریا سے گزرا تو کچھ نمک پانی میں گھل گیا اور بوجھ ہلکا ہو گیا۔ بیوقوف دھوبی کے گدھے نے یہ دیکھا تو سوچا،

    “واہ! اگر میں بھی دریا میں گر جاؤں تو میرا بوجھ بھی ہلکا ہو جائے گا!”

    اگلے دن جب دھوبی نے گدھے پر کپڑے لادے اور دریا کی طرف چل پڑا، تو گدھے نے موقع دیکھ کر جان بوجھ کر دریا میں گرنے کی کوشش کی۔
    لیکن اس بار تو کپڑے تھے، نمک نہیں! جیسے ہی وہ پانی میں گرا، کپڑے گیلے ہو گئے اور ان کا وزن دگنا ہو گیا۔

    اب گدھے پر اتنا وزن پڑا کہ وہ اٹھ ہی نہ سکا۔ دھوبی غصے میں آگ بگولا ہو گیا اور بولا:

    “بیوقوف گدھے! جو چیز ایک کے لیے فائدہ مند ہو، وہ ضروری نہیں کہ دوسرے کے لیے بھی ہو!”

    اس کے بعد گدھے نے سبق سیکھ لیا کہ نقل ہمیشہ نقصان دیتی ہے، سمجھداری فائدہ۔

    کہانی کا سبق

    نقل سے عقل نہیں آتی۔
    دوسروں کی دیکھا دیکھی کرنے کے بجائے، اپنے حالات کے مطابق فیصلہ کرو
    ۔