ایک زمانے کی بات ہے، ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک دھوبی رہتا تھا۔ دھوبی کے بیوقوف گدھا کی کہانی اس کے پاس ایک گدھا تھا جو روزانہ اس کے ساتھ دریا کے کنارے جاتا، کپڑے لاد کر گھر واپس آتا۔ گدھا محنتی تو تھا، لیکن بہت بیوقوف بھی تھا۔

ایک دن دھوبی نے سوچا کہ آج زیادہ کپڑے دھو لوں تاکہ کل آرام کر سکوں۔ اس نے اپنے گدھے پر کپڑوں کی بھاری گٹھڑیاں لاد دیں۔ گدھے نے بہت مشکل سے وہ وزن اٹھایا اور دریا کی طرف چل پڑا۔ راستے میں وہ بہت تھک گیا۔

جب وہ دریا کے کنارے پہنچے تو دھوبی کپڑے دھونے لگا۔ گدھا ایک طرف کھڑا ہو کر آرام کرنے لگا۔ قریب ہی ایک چوراہے پر ایک تاجر کا گدھا بھی کھڑا تھا، جس پر نمک کی بوریاں لدی تھیں۔

جب تاجر کا گدھا دریا سے گزرا تو کچھ نمک پانی میں گھل گیا اور بوجھ ہلکا ہو گیا۔ بیوقوف دھوبی کے گدھے نے یہ دیکھا تو سوچا،

“واہ! اگر میں بھی دریا میں گر جاؤں تو میرا بوجھ بھی ہلکا ہو جائے گا!”

اگلے دن جب دھوبی نے گدھے پر کپڑے لادے اور دریا کی طرف چل پڑا، تو گدھے نے موقع دیکھ کر جان بوجھ کر دریا میں گرنے کی کوشش کی۔
لیکن اس بار تو کپڑے تھے، نمک نہیں! جیسے ہی وہ پانی میں گرا، کپڑے گیلے ہو گئے اور ان کا وزن دگنا ہو گیا۔

اب گدھے پر اتنا وزن پڑا کہ وہ اٹھ ہی نہ سکا۔ دھوبی غصے میں آگ بگولا ہو گیا اور بولا:

“بیوقوف گدھے! جو چیز ایک کے لیے فائدہ مند ہو، وہ ضروری نہیں کہ دوسرے کے لیے بھی ہو!”

اس کے بعد گدھے نے سبق سیکھ لیا کہ نقل ہمیشہ نقصان دیتی ہے، سمجھداری فائدہ۔

کہانی کا سبق

نقل سے عقل نہیں آتی۔
دوسروں کی دیکھا دیکھی کرنے کے بجائے، اپنے حالات کے مطابق فیصلہ کرو
۔

Leave A Reply

Please enter your comment!
Please enter your name here