اسلامی تاریخ میں حضرت آدم علیہ السلام اور ابلیس کا واقعہ وہ پہلا لمحہ ہے جب زمین پر انسان کی آزمائش کا آغاز ہوا۔ یہ واقعہ قرآنِ مجید میں بارہا ذکر کیا گیا ہے، تاکہ انسان سمجھ سکے کہ غرور، حسد اور تکبر کس طرح ایک مخلوق کو ہمیشہ کے لیے محروم کر دیتا ہے۔
آدم علیہ السلام کی تخلیق
اللہ تعالیٰ نے جب زمین سے مٹی لی اور اس سے ایک حسین و جمیل پیکر بنایا، تو فرمایا:
“میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں” (سورہ بقرہ: 30)
فرشتے حیران تھے کہ یہ کیسی مخلوق ہوگی جو زمین پر رہے گی، کھائے گی، پیے گی، اور اپنی نسل کو بڑھائے گی۔ مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام میں اپنی روح پھونکی، اور یوں وہ ایک زندہ، باشعور مخلوق بن گئے، جنہیں علم دیا گیا — تمام چیزوں کے ناموں کا علم۔
ابلیس کا تکبر
جب اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ تمام فرشتے آدم علیہ السلام کو سجدہ کریں، تو سب نے فوراً سجدہ کیا، مگر ایک مخلوق نے انکار کیا — وہ تھا ابلیس۔
ابلیس جنات میں سے تھا، اور اس نے اللہ تعالیٰ سے کہا:
“میں آگ سے پیدا کیا گیا ہوں، اور آدم مٹی سے۔ میں اس سے بہتر ہوں، تو میں اسے سجدہ کیوں کروں؟”
یہی جملہ ابلیس کی تباہی کا آغاز تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
“نکل جا! تُو مردود ہے، اور قیامت تک تجھ پر لعنت رہے گی۔”
شیطان کا وعدہ
ابلیس نے اللہ سے مہلت مانگی کہ اسے قیامت تک زندہ رکھا جائے، تاکہ وہ آدم اور ان کی اولاد کو گمراہ کرے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
“جا، تجھے مہلت دی گئی۔ مگر میرے نیک بندے تیرے بہکاوے میں نہیں آئیں گے۔”
یہی وہ لمحہ تھا جب انسان اور شیطان کے درمیان دشمنی کا آغاز ہوا۔
جنت کی آزمائش
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوّا کو جنت میں رہنے دیا، مگر ایک درخت کے قریب جانے سے منع فرمایا۔
ابلیس، جو دل میں حسد پال چکا تھا، ان کے پاس آیا اور فریب دیا:
“اگر تم یہ پھل کھاؤ گے تو ہمیشہ زندہ رہو گے۔”
حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوّا اس وسوسے میں آگئے اور درخت کا پھل کھا لیا۔ نتیجے میں جنت کی نعمتیں چھن گئیں، اور انہیں زمین پر بھیج دیا گیا۔
توبہ اور مغفرت
مگر انسان اور شیطان میں ایک فرق یہ ہے کہ انسان خطا کرتا ہے مگر توبہ کرتا ہے، جبکہ شیطان تکبر کرتا ہے اور انکار کرتا ہے۔
حضرت آدم علیہ السلام نے سچے دل سے دعا کی:
“اے ہمارے رب! ہم نے اپنے اوپر ظلم کیا، اگر تُو ہمیں معاف نہ کرے اور ہم پر رحم نہ فرمائے تو ہم خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔”
(سورہ اعراف: 23)

